Wednesday, July 17, 2013

Ye ishq kiya hai faqat seher baryaabi hai

یہ عشق کیا ہے فقط سحرِ باریابی ہے
اور اس کے بعد جو عمروں کی نیم خوابی ہے

میں اپنی تشنہ لبی سے فریب کھاتا ہوں
وگرنہ سامنے صحرا بھری سرابی ہے

میں ایک جھیل کی صورت ہوں آئنے کی طرح
کسی کے دم سے یہ باطن بھی ماہتابی ہے

بیانِ حالِ دلِ ناصبور کون سنے
یہاں تو عشق و محبت بھی اب نصابی ہے

بس ایک خواہشِ بے سود ہے سمجھنا مجھے
جمالِ یار کا پرتو مری خرابی ہے

میں اپنے آپ سے نالاں بھی ہوں گریزاں بھی
کہ بے سبب ہی مرا آسماں گلابی ہے

سخنوری کے نشے میں بہک نہ جاؤں کہیں
کسی کی آنکھ میں تھوڑی سی بے حجابی ہے

No comments:

Popular Posts