Tuesday, July 16, 2013

showcase jaisa mera ye ghar

شوکیس جیسا میرا یہ گھر


مری ماں کی نگاہیں
کئی دن سے
مرے پیکر سے کچھ
سرگوشیاں سے کر رہی تھیں
مسرت سے عجب حالت تھی ان کی
کبھی ممتا بھری آنکھوں میں
جگنو سے چمکتے تھے
کئی دن سے فضا آنگن کی بدلی بدلی
اور کچھ مختلف سے لگ رہی تھی
مرے بابا کی آنکھوں میں بھی کچھ
خوش رنگ منظر تھے
ابھی وہ رات میں بھولی نہیں ہوں
میں اپنی ماں کے سینے سے لگی
لیٹی ہوئی تھی
مرے بالوں میں ان کی انگلیاں تھیں
میں ان کی انگلیوں کے پوروں کی
ساری صدائیں سن رہی تھی
مرے چہرے پہ
ان کی خوش نظر آنکھوں کے لہجے کی ضیائیں تھیں
جو خاموشی سے میرے کان میں کچھ کہہ رہی تھیں
نہ ماں کے لب ہلے تھے اور نہ میرے
مگر وہ بات مجھ سے کر رہی تھیں
میں اک اک بات ان کی سن رہی تھی
مرے احساس کی ساری صدائیں
مری ماں کی
رگِ احساس سے ٹکرا رہی تھیں
وہ باتیں
قربتوں کے ٹوٹنے کی اک کہانی تھی
مرا وہ ہاتھ
جو بچپن سے ان کے ہاتھ میں تھا
مرے اس ہاتھ کی ساری لکیروں پر
مری ماں اب کسی کا نام لکھنا چاہتی تھیں
جسے سن کر
مرے چہرے پہ شاید
خوف کا سایہ سا لہرایا
مرے احساس کے جلتے ہوئے
صحرا کے دامن پر
مری آنکھوں سے
کچھ نا دید آنسو
اس طرح ٹپکے
کہ جس کے چھن سے بجنے کی صدا
مری ماں کی سماعت تک بھی پہنچی
مرے آنسو کی یہ آوازِ گریہ
بھلا کیسے نہ ان کانوں تک آتی
کہ وہ خود بھی کبھی بیٹی رہی ہیں
پھر اس کے بعد تو وہ
مختلف سی ماں نظر آئیں
مرے اس خوف کے سائے کو
کم کرنے کی خواہش میں
مرے ماں باپ نے پھر سے مجھے
معصوم سی بچی بنا ڈالا
جسے دیکھو
کھلونے دے کے بہلا نے لگا مجھ کو
بہن کہتی مری باجی تو
اس جوڑے میں
شہزادی لگیں گی
یہ ٹیکا
ان کی پیشانی کو چھوتے ہی
کچھ اس صورت سے دمکے گا
کہ سورج، چاند، تارے
شرم سے چہرہ چھپا لیں گے
کہیں سے یہ صدا آتی
یہ کنگن، چوڑیاں ، یہ ہار، یہ جھمکے کی جوڑی
یہ سب سونے کے زیور
تکلم آشنا ہو جائیں گے
گڑیا سے مل کر
مجھے کچھ دن سے اس گھر پر
کھلونوں کی دکانوں کا گماں ہونے لگا ہے
کسی سی کیا کہوں
اور کیا کوئی اس بات کو سمجھے
کھلونے پھر کھلونے ہیں
یہ ہر دکھ کی دوا تو ہو نہیں سکتے
مرے اندر جو لڑکی رو رہی ہے
وہ نوحہ جومرا دل پڑھ رہا ہے
کھلوں سے بھرا
شوکیس جیسا میرا یہ گھر
مرے دکھ کو ہوائیں دے رہا ہے
مری نظریں کھلونوں کو نہیں
خلا کی وسعتوں کو تک رہی ہیں
مری آنکھیں مسلسل
گمشدہ اس نیند کو
آواز پر آواز دیتی جا رہی ہیں
جو میرے خوف کے سائے نے
میری ماں کی آنکھوں سے
چُرا لی ہے
کوئی وہ نیند میری ماں کو لوٹا دے
مرے سارے کھلونے مجھ سے لے جائے
٭٭٭

No comments:

Popular Posts