Tuesday, July 16, 2013

naye shook ka haasil hai

نے شوق کا حاصل ہے

حسب عادت
جانے کب سے
کھیل رہے تھے ہم آپس میں
موتی کے ان دانوں سے
جن دانوں کو باندھ رکھا تھا
اک کمزور سے دھاگے نے
وہ دھاگہ
جس دھاگے پر ہے
صدیوں سے آسیب کا سایہ
جیسے کوئی
خزاں رسیدہ زر دسا پتہ
بے وقعت اور بے مایہ
کھیل ہی کھیل میں
جانے کیسے ، جانے کیوں کر
پھر وہ مالا ٹوٹ گئی
سورج، چاند، ستارے جیسے
سارے موتی بکھر گئے
موتی کیا بکھرے کہ
ہمارے خواب ہی سارے بکھر گئے
سچے موتی کے وہ دانے
اک دوجے سے دور ہوئے
آنکھ کے تارے
خاک بسر ہو جانے پر مجبور ہوئے
دیر تلک آنکھوں نے دیکھا
حسرت سے اس منظر کو
کچھ موتی کیچڑ میں پڑے تھے
کچھ مٹی
کچھ جھاڑی میں
سب کے چہرے اُترے اُترے
سب کے دامن خاک آلود
آب و تاب کی اک اک لَو پر
تیز ہوا کی ہے یلغار
سورج، چاند، ستارے
سب کے کھو جانے کے ہیں آثار
وائے حسرت
واہ رے اپنی کم نظری
سچے موتی کے دانوں کو
ڈھونڈ نے اور چُننے سے قبل
اپنی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں
اس کمزور سے دھاگے کو
جس دھاگے میں
خواب پرونے کی خواہش
لاحاصل ہے
لیکن یہ دل آج بھی کارِ لاحاصل پہ مائل ہے
اب تک یہ لاحاصل کوشش
اپنے شوق کا حاصل ہے
٭٭٭

No comments:

Popular Posts