Monday, July 15, 2013

Main aksar sochta hoon aur phir heraan hota hoon

 میں اکثر سوچتا ہوں
اور پھر حیران ہوتا ہوں
کہ آخر کون سی قوّت بڑی ہے
پرندے ہوں کہ چوپائے
سمندر کی کوئی مخلوق ہو
یا خود سمندر
وہ دریا ہو کہ ہو صحرا کی وسعت
بشر ہویا کہ ہو ابلیس کی ذات
طلب ہر ایک کی ہے
فتح مندی
یہاں قامت میں جو جتنا بڑا ہے
اسی نسبت سے اس کی خواہشیں ہیں
ہر اک کی ذات کا بنیادی مقصد
اَنائے ذات کا اظہار کرنا
کتابِ حق کی کوئی بات ہویا
رموزِ زندگی کی داستانیں
کہانی رزم گاہِ زیست کی ہو
کہ بزمِ آرزو کی لن ترانی
جہاں بھی دیکھتے
بس ایک نکتہ سب سے روشن ہے
کلاہِ ذات کو خوش نام رکھنا
جبینِ آرزو پر ’’فتح‘‘ لکھنا
مگر
کہانی جیت کی
ہابیل کے تازہ لہو سے
لکھا تھا وقت نہ
قابلی کے دامن پہ جس خطِّ جَلی میں
اسی انداز سے تجدید اس کی
ہمارے عہد میں بھی ہو رہی ہے
سنا ہے حشر تک ہوتی رہے گی
خدا کے نیک بندوں کا تناسب
لہو روتی ہوئی آنکھوں سے پوچھیں
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب
سفر کے درمیاں کے حادثے میں

مگر جب ہم یہ سنتے ہیں
قریبِ روزِ محشر بھی
خدا کے نیک بندوں کے لیے
ترسے گی دنیا
کہیں میلوں پہ جا کے
لرزتا ٹمٹماتا سا چراغِ راہ کوئی
فلک کی سمت پیہم تک رہا ہو گا
علم اس وقت بھی سب سے نمایاں
اسی ابلیس کے ہاتھوں میں ہو گا
تو پھر میں سوچتا ہوں
کہ آخر کون سی قوّت بڑی ہے
٭٭٭

No comments:

Popular Posts