Wednesday, July 17, 2013

Koshish k bawajood bhi roya nahi gaya

کوشش کے باوجود بھی رویا نہیں گیا
دامن کا ایک داغ بھی دھویا نہیں گیا

برسے پھر ابر ایسے کہ بس کچھ نہ پوچھئے
وہ بیج بھی اگا کہ جو بویا نہیں گیا

آشفتگی کے زیرِ اثر گزرے رات دن
جاگا نہیں گیا کبھی سویا نہیں گیا

اب بھی تو چونک اٹھتے ہیں ہم اس کے نام پر
دل سے ہمارے وہم سا گویا نہیں گیا

زیبِ گلو کریں تو کریں کس طرح اسے
وہ پھول جو کہیں بھی سمویا نہیں گیا

ہم پر کھلا نہیں کہ وہ کیسا ہے عشق سعدؔ
جس میں کہ اپنا چین بھی کھویا نہیں گیا

No comments:

Popular Posts