Wednesday, July 17, 2013

Khud apni hud se nikal ker hadood dhoondti hai

خود اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے
کہ خاک بارِ دِگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے

ہوائے تُند بڑھاتی ہے خود چراغ کی لو
کہ روشنی میں یہ اپنا وجود ڈھونڈتی ہے

ابھی ستارہ سا چمکا تھا میری پلکوں پر
کوئی تو شے ہے جو بود و نبود ڈھونڈتی ہے

بہار ہو کہ خزاں، کچھ نہیں ہے میرے بغیر
یہ کائنات بھی شاید شہود ڈھونڈتی ہے

یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے
کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے

یہی تو ہے المیّہ کہ رات دن دنیا
زیاں بدست ہر اک شے میں سود ڈھونڈتی ہے

بکھیر دے جو مری خاک کو ہر اک جانب
ہوائے روح اک ایسا سرود ڈھونڈتی ہے

خودی کو سعدؔ کسی مرتبے پہ لا کہ جہاں
ادائے ناز قیام و قعود ڈھونڈتی ہے

No comments:

Popular Posts