Tuesday, July 16, 2013

khilonay ab mujhe poem sunatey hain

کھلونے اب مجھے پوئم سناتے ہیں



کھلونوں کی دکانیں
اور وہ شوکیس میں رکھے ہوئے
سارے کھلونے
جنھیں بچپن میں
میں تا دیر تکتا رہتا تھا اکثر
بسا اوقات
ان سے گفتگو ہوتی تھی میری
میں ان سے
اور وہ مجھ سے
کچھ اس درجہ شناسا تھے
کہ ہم اک دوسرے سے دور رہ کر بھی
کیا کر تے تھے باتیں
اور ہم اک دوسرے کا ہاتھ تھا مے
گھوما کرتے تھے
کبھی پھلواری کی رنگین بستی میں
کبھی بازاروں کی ہنستی فضاؤں میں
کبھی اک ساتھ ملک کر ہم
اڑا کرتے تھے
بادل کی رفاقت میں
کبھی تتلی پکڑے تھے
کبھی جگنو کے پیچھے
بھاگتے رہتے تھے راتوں کو
بسا اوقات تو
خوابوں میں بھی ان سے ملا کرتا تھا میں
کھلونے
میرے قطرہ ہائے خون میں
یوں کیا کرتے تھے گردش
کہ میں ان کے تبسم کا اجلا دیکھتا تھا
صحنِ گلشن کی فضاؤں میں
کلی کے پیرہن میں
پھول کے طرزِ تکلم میں
شفق کے رنگ میں
افلاک کے ہنستے ستاروں میں
رفاقت آج بھی قائم ہے میری
ان کھلوں سے
میں اب بھی کھیلتا رہتا ہوں ان سے
مگر اب وہ کھلونے
دکانوں سے نکل کر
آ گئے ہیں
ہمارے آنگنوں میں
ہماری گود میں
نرسری اسکول کے
خوش رنگ منظر میں
بصارت کی ضیا میں
ہماری آرزوؤں
اور تمناؤں کے روشن استعاروں میں
مہکتے مسکراتے
خواب کے تازہ شماروں میں
کھلونوں کے لبوں سے
واقعی اب پھول جھڑتے ہیں
یہ سچ مچ جگنوؤں اور تتلیوں کے ساتھ
پہروں رقص کرتے ہیں
میں سچ مچ ان کو سینے سے لگا کر
بادلوں کے ساتھ اُڑتا ہوں
کھلونے اب مجھے پوئم سنا تے ہیں
ترانہ گنگناتے ہیں
مرے خوابوں کو
ساون رُت میں یہ جھولا جھلاتے ہیں
کھلوں کو
حرارت زندگی کی بخش دی ہے
میرے خالق نے
٭٭٭٭٭

No comments:

Popular Posts