Wednesday, July 17, 2013

Dar pe hasti mohoom fiza si kiya hai

در پئے ہستی موہوم قضا سی کیا ہے
اپنا مقسوم جو ٹھہری وہ سزا سی کیا ہے

وجہِ تخلیقِ جہاں تھی مری لغزش ورنہ
رحمتِ حق کے مقابل یہ خطا سی کیا ہے

کیوں اڑاتی ہے مری خاک مجھے سوئے فلک
میرے انفاس میں شامل یہ ہوا سی کیا ہے

محوِ حیرت ہوں کہ ویرانے میں ہے کون مکیں
میرے سینے سے الجھتی یہ صدا سی کیا ہے

نہ کوئی صبحِ طرب ہے نہ کوئی شامِ نشاط
کچھ بھی کھلتا نہیں مجھ پر کہ اداسی کیا ہے

ریزہ ریزہ ہوئی جاتی ہیں مجسم شکلیں
الحذر! آئنہ خانہ میں بلا سی کیا ہے

تُو جو دریا ہے تو پھر توڑ دے ساحل اپنے
اے مری موجِ گریزاں یہ حیا سی کیا ہے

جب یقیں دل سے اٹھا تو مجھے احساس ہوا
گرد ہوتی ہوئی سر پر یہ رِدا سی کیا ہے

پاؤں کی مٹی بھی کب چھوڑ سکا پھر کوئی
زندگی! دیکھ ہماری یہ قضا سی کیا ہے

تُو اگر وہم ہے یا خام خیالی میری
پھر سرِ شام ان آنکھوں میں گھٹا سی کیا ہے

سعدؔ کیوں تجھ سے ملیں صرف بچھڑنے کے لیے
ہاں اگر طے ہے یہ سب کچھ، تو دعا سی کیا ہے

No comments:

Popular Posts