Wednesday, July 17, 2013

Be-sada aahat

بے صدا آہٹ


میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا
تھا کس میں حوصلہ اتنا کہ اپنے خواب کو چھُو لے
مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو
مناظر اور ہی کچھ تھے
نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں
نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ خوشبو میں رچی سانسیں
نہ شہد آگیں سے لب اُس کے
نہ اُن پر حرفِ گل کوئی
مکمل اک نیا چہرہ
مکمل اک نیا لہجہ
وہ اس کا یوں بدل جانا تو اس کی اک ضرورت تھی
کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی
وگرنہ اس میں کیا شک ہے، اُسے مجھ سے محبت تھی
٭٭٭

No comments:

Popular Posts