Wednesday, July 17, 2013

Aaj bhi mera nahi aur mera kal bhi nahi

آج بھی میرا نہیں اور مرا کل بھی نہیں
سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں

وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری
میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں

کیسی دانائی کہ مر جانا کسی کی خاطر
میرے جیسا کوئی اس دنیا میں پاگل بھی نہیں

کیا غضب ہے کہ وہ پھر بھی ہے قیامت آسا
رُخ پہ غازہ بھی نہیں آنکھ میں کاجل بھی نہیں

کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے
دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں

وہ جو دیتا ہے مجھے غیب سے یوں رزقِ سخن
مجھ پہ ظاہر تو نہیں ہے مگر اوجھل بھی نہیں

جانے یہ کیسا سفر ہے کہ چلے جاتے ہیں
آنکھ کھلتی نہیں اور ہاتھ میں مشعل بھی نہیں

دوست! کس بات پہ موقوف ہے اب تیرا سفر
پاؤں زخمی بھی نہیں جسم ترا شل بھی نہیں

سعدؔ اب دل کو سنبھالیں کہ کوئی کام کریں
مسئلہ وہ ہے کہ اب جس کا کوئی حل بھی نہیں

No comments:

Popular Posts